تل بیب،20جون(ایس اونیوز/آئی این ایس انڈیا)اسرائیلی وزیر ثقافت نے ملک کے تمام تھیٹر اور ڈانس گروپوں کو ایک سخت سوال نامہ بھیجا ہے، جس کا مقصد یہ معلوم کرنا ہے کہ اسرائیل کے کون سے فنکار مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں قائم یہودی بستیوں میں پرفارم کرنے سے گریزاں ہیں۔نیوز ایجنسی اے پی کی رپورٹوں کے مطابق اسرائیل کی متنازعہ سمجھی جانے والی وزیر ثقافت میری ریگیو اس طرح ایسے اداروں یا افراد کو سزائیں دے سکیں گی، جو مغربی کنارے کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں قائم غیر قانونی یہودی بستیوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔دوسری جانب خاتون وزیر ثقافت کے دفتر سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ انہیں اس انقلاب کی قیادت کرنے پر فخر ہے، جس کے تحت ثقافت کو ہر اسرائیلی شہری کے لیے قابل رسائی بنا دیا جائے گا۔ناقدین کا کہنا ہے کہ اس طرح فن کی دنیا کو سیاسی بنایا جا رہا ہے اور یہ اقدام فنکارانہ آزادی سے متصادم ہے۔ گزشتہ برس تقرری کے بعد سے اسرائیلی خاتون وزیر ثقافت کے ملکی ثقافتی برادری کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ وہ اسرائیلی فنکاروں کو بھی اپنے سیاسی نظریے کے مطابق ڈھالنا چاہتی ہیں۔گزشتہ برس اسی خاتون وزیر نے اُس تھیٹر کی فنڈنگ ختم کر دی تھی، جس نے اپنے ایک ڈرامے میں فلسطینی قیدیوں کی عکاسی کی تھی۔ اسرائیلی فنکار اپنے کئی دیگر ہم عصر غیر اسرائیلی فنکاروں کی طرح آزادی پسند ہیں، جو کسی کی ماتحتی میں نہیں آنا چاہتے اور ان میں سے کئی مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کے خلاف واضح تنقیدی آواز بن چکے ہیں۔وزیر ثقافت کی طرف سے جملہ ثقافتی گروپوں کو بھیجے جانے والے سوال نامے میں یہ بھی پوچھا گیا ہے کہ آیا انہیں مغربی کنارے میں یہودی بستیوں یا شمال اور جنوب میں واقعے ایسے نئے علاقوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے پر کوئی اعتراض ہے۔ اس وزیر کے مطابق اس سوال نامے کے نتیجے کی صورت میں ان تنظیموں کو عوامی فنڈز مہیا کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ملکی اپوزیشن کے ایک رکن پارلیمان ڈوو کینن کہتے ہیں کہ وزیر ثقافت جان بوجھ کر اس مسئلے کو نئی بستیوں کی تعمیر کے حق میں استعمال کرنا چاہتی ہیں۔ ان کے مطابق حکومت کو نہ تو فنکاروں اور نہ ہی ثقافت میں کوئی دلچسپی ہے بلکہ انہیں صرف اس بات سے غرض ہے کہ یہ فنکار غیرقانونی بستیوں کی تعمیر کی حمایت کیوں نہیں کر رہے۔